محکمہ تعلیم بھی مشکل کی گھڑی میں کام کر رہا ہے
ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے
وطنِ عزیز پر اس ان دیکھی آفت کی گھڑی میں ہر شہری جہاں خوف و ہراس اور بے یقینی کی حالت میں مبتلا ہے وہیں بہت سے سرکاری ملازمین خصوصاً پیرا میڈیکل سٹاف، ریسکیو 1122، پولیس ، فوج، ضلعی انتظامیہ اور محکمہ ایجوکیشن کے افراد عوام کی خدمت و حفاظت کے لیے اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ مشکل کی اس گھڑی میں اپنی قوم کی خدمت باعثِ فخر و سعادت مندی ہے۔ محکمہ ایجوکیشن کے اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسرز ، ٹیچرز اور کلاس فور کے ملازمین کو قرنطینہ سنٹرز پر تعینات کیا گیا ہے۔ محکمہ ایجوکیشن کے یہ ملازمین ان سنٹرز پر بغیر کسی طبعی و حفاظتی تربیت اور سازوسامان کے اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں.یہ سب رضاکار ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا ضروری تربیت اور سازوسامان کے ان افراد کو قرنطینہ سنٹر پہ تعینات کرنا ان کو موت کے منھ میں دھکیلنے کے مترادف نہ ہے۔۔۔؟ یہ قومی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں مگر سپاہی کو اسلحہ دئیے بغیر بارڈر پر روانہ کر دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بھی اپنے ریمارکس میں اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ قرنطینہ سنٹرز سمیت باقی حساس جگہوں پت محکمہ صحت کے افراد تعینات کیے جائیں اس ضمن میں میڈیکل کے چھ ہزار طلبا کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔
یا اگر انتظامیہ ان لوگوں کی تعیناتی پر بضد ہے تو خدا کیلیے انھیں ضروری تربیت اور حفاظتی سازوسامان فراہم کیا جاے۔۔
۔سوال یہ ہے کہ کیا کسی ناگہانی صورتحال کے پیش آنے پر ڈاکٹرز کی طرح محمکہ ایجوکیشن کے ملازمین کو بھی شہید کا درجہ دیا جائے گا۔ یا میرے چمن میں جب بہار آئے گی، جو کہ میرا یقین ہے کہ آ کے رہے گی، تب کیا ان ملازمین کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا جائے گا یا ہمیشہ کی طرح ان سب اعزازات کے حق دار چند مخصوص محکمے ہی قرار پائیں گے۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
وطنِ عزیز پر اس ان دیکھی آفت کی گھڑی میں ہر شہری جہاں خوف و ہراس اور بے یقینی کی حالت میں مبتلا ہے وہیں بہت سے سرکاری ملازمین خصوصاً پیرا میڈیکل سٹاف، ریسکیو 1122، پولیس ، فوج، ضلعی انتظامیہ اور محکمہ ایجوکیشن کے افراد عوام کی خدمت و حفاظت کے لیے اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ مشکل کی اس گھڑی میں اپنی قوم کی خدمت باعثِ فخر و سعادت مندی ہے۔ محکمہ ایجوکیشن کے اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسرز ، ٹیچرز اور کلاس فور کے ملازمین کو قرنطینہ سنٹرز پر تعینات کیا گیا ہے۔ محکمہ ایجوکیشن کے یہ ملازمین ان سنٹرز پر بغیر کسی طبعی و حفاظتی تربیت اور سازوسامان کے اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں.یہ سب رضاکار ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا ضروری تربیت اور سازوسامان کے ان افراد کو قرنطینہ سنٹر پہ تعینات کرنا ان کو موت کے منھ میں دھکیلنے کے مترادف نہ ہے۔۔۔؟ یہ قومی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں مگر سپاہی کو اسلحہ دئیے بغیر بارڈر پر روانہ کر دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بھی اپنے ریمارکس میں اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ قرنطینہ سنٹرز سمیت باقی حساس جگہوں پت محکمہ صحت کے افراد تعینات کیے جائیں اس ضمن میں میڈیکل کے چھ ہزار طلبا کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔
یا اگر انتظامیہ ان لوگوں کی تعیناتی پر بضد ہے تو خدا کیلیے انھیں ضروری تربیت اور حفاظتی سازوسامان فراہم کیا جاے۔۔
۔سوال یہ ہے کہ کیا کسی ناگہانی صورتحال کے پیش آنے پر ڈاکٹرز کی طرح محمکہ ایجوکیشن کے ملازمین کو بھی شہید کا درجہ دیا جائے گا۔ یا میرے چمن میں جب بہار آئے گی، جو کہ میرا یقین ہے کہ آ کے رہے گی، تب کیا ان ملازمین کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا جائے گا یا ہمیشہ کی طرح ان سب اعزازات کے حق دار چند مخصوص محکمے ہی قرار پائیں گے۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
Comments
Post a Comment